ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں


(اے اللہ )ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
رہی بات غیراللہ سے مانگنے کی تو اس سلسلے میں مندرجہ ذیل حقائق قابل غور ہیں ؟
اللہ سبحان و تعالیٰ نے یہ بات واضح طور پر فرما دی کہ ہر قسم کی مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے (آل عمران 160 / 126)
فرق صرف یہ ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ محض اپنے حکم (کلمہ كُن) کی طاقت سے براہ راست اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے(تمام معجزات و کرمات اس کی واضح مثال ہیں)اور کبھی زندہ مخلوق کو اسباب اور توفیق سے نوازتا ہے تو وہ ایک دوسرے کی مدد کرتی ہے
لیکن جب کسی پاک روح کو ہر چیز کو جاننے والی اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والی سمجھ کر پکارا جائے یا اسی عقیدے کے ساتھ اس پاک روح کی طرف منسوب کسی چیز(بت قبر یا جانور وغیرہ) کی تعظیم کی جائے تاکہ اس پاک روح کا غیبی تقرب حاصل ہو اور وہ خوش ہو کر ہماری ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کرے تو شرک اکبر ہے کیونکہ ہر چیز کو جاننا اور قدرت رکھنا خاص اللہ تعالی کی صفات ہیں جو اس نے کبھی کسی کو عطا نہیں کیں صرف اسی غیر اللہ سے مدد مانگی جائے جس سے اللہ تعالی نے مدد مانگنے کا حکم دیا ہے مثلا اللہ تعالی نے زندہ انسانوں کو (نیکی کے کاموں میں )ایک دوسرے سے مدد لینے اور ایک دوسرے کے کام آنے کا حکم دیا ہے ( المائدہ 2:5) مگر انسانوں کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ جنوں اور پاک روحوں سے غیبی مدد کا مطالبہ کریں
جس عقیدے و طریقے سے اللہ سے مدد مانگی جاتی ہےاس عقیدے اور طریقے سے غیر اللہ سے مدد نہیں مانگی جائے گی
جس طرح اللہ تعالی اپنی مخلوق کی مدد کرتا ہےاس طرح مخلوق ایک دوسرے کی مدد نہیں کر سکتی
اللہ ہی سے ہر قسم کی مدد مانگی جاسکتی ہے غیر اللہ سے ایسی مدد مانگنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ نے اس غیر اللہ کو فریادیں سننے اور پورا کرنے کا اختیار دیا ہو اور مجبور و بےکس لوگوں کو اس سے فریاد کرنے کا حکم دیا ہو
جبکہ اللہ تعالی نے ایسا نہیں کیا لہذا غیر اللہ سے مدد مانگنا جائز نہیں ہوا
اللہ تعالی نے عالم ارواح میں تمام انبیاء علیہم السلام سے یہ وعدہ لیا تھا اگر تمھاری زندگی میں میرا آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم آگیا تو اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہوگی جو ایسا نہیں کرے گا وہ نافرمان ہو جائے گا ال عمران( 82: 83)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی صاحب قبر کی روح کو اللہ تعالی نے اہل دنیا کا نگران بنایا ہے
اسے مخلوقات کی دعائیں سننے کا اختیار دیا ہے اور کیا اہل دنیا کو اس سے مدد مانگنے کا حکم دیا ہے؟ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری حیات طیبہ میں مذکور عہد کے حوالے سے یا اپنے طور پر جنگوں مصیبتوں میں کبھی کسی پیغمبر کی روح سے غائبانہ طور پر مدد مانگی یا یہ نعرہ لگایا ہو کہ یا ابراھیم علیہ السلام المدد یا ذکریا علیہ السلام المدد الحمداللہ کسی بھی پیغمبر نے کسی پیغمبر کی روح سے غائبانہ فریاد نہیں کی
خیر القرون میں کوئی مزار تھا جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم تابعین اور تبع و تابعین رحمتہ اللہ سالانہ عرس و زیارت کہ لئے قافلہ در قافلہ پہنچتے ہوں؟
دراصل وسیلے کے اس مصنوعی تصور نے بندے کے عجز و انکسار اور بندگی کو خالق و مخلوق کے درمیان تقسیم کر دیا ہے جو کہ اللہ کہ ہاں ناقابل معافی جرم ہے اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین
انعام اسی کو ملتا ہے جو صحیح العقیدہ مسلمان ہو جس کا عمل سنت نبوی کے عین مطابق ہو جو صرف اللہ کی رضا چاہے، عقیدہ و عمل میں اگر کفر، شرک و بدعت درآئیں تو پھر انعام نہیں ملا کرتا