اسلام سے پہلے عرب (اولیاء اللہ ود سواع یعوق یغوث نسر)

دعوت توحید Dawat e tawheed

عرب کے عام باشندے اسماعیل علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں دین ابراہیم کے پیروکار تھے اس لیے صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے اور توحید پر کاربند تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اللہ کے احکامات کو بھلا دیا پھر بھی ان کے اندر توحید اور دین ابراہیمی کے کچھ آثار باقی رہے کچھ شعائر پر وہ عمل پیرا رہے یہاں تک کہ بنو خزاعہ کا سردار عمرو بن لحی منظر عام پر آیا اس کی نشوونما نیکی صدقہ و خیرات اور دینی باتوں سے گہری دلچسپی پر ہوئی تھی اس لیے لوگوں نے اسے محبت کی نظر سے دیکھا اسے بڑا عالم اور اللہ کا ولی سمجھ کر اس کی پیروی کی پھر اس شخص نے ملک شام کا سفر کیا اس نے دیکھا وہاں بتوں کی پوجا ہو رہی تھی اس نے سمجھا یہ طریقہ بھی اچھا ہے اور برحق ہے کیونکہ ملک شام پیغمبروں کی سرزمین تھی آسمانی کتابیں وہاں نازل ہوئی تھی چنانچہ واپسی پر وہ وہاں سے اپنے ساتھ ہبل بت بھی لے آیا اور اسے خانہ کعبہ کے اندر نصب کر دیا اور اہل مکہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی دعوت دی اہل مکہ نے اس پر لبیک کہا اس کے بعد بہت جلد حجاز کے باشندے بھی شامل ہو گئے وہ بھی ان کے نقشِ قدم پر چل پڑے اس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا ہبل کے علاوہ عرب کے قدیم ترین بتوں میں سے ایک منات تھا یہ بحر احمر کے ساحل پر قدیب کے قریب مشلل میں نصب تھا اس کے بعد طائف میں لات نامی بت وجود میں آیا پھر وادی نخلہ میں عزیٰ کا بت نصب کیا گیا یہ تینوں عرب کے سب سے بڑے بت تھے اس کے بعد حجاز کے ہر خطے میں شرک کی کثرت اور بتوں کی بھرمار ہو گی کہا جاتا ہے کہ ایک جن عمرو بن لحی کے تابع تھا اس نے بتایا قوم نوح کے بت ود سواع یغوث یعوق نسر جدہ میں دفن ہیں اس اطلاع پر عمرو بن لحی جدہ گیا اور ان بتوں کو کھود نکالا پھر ان کو تحامہ لایا اور جب حج کا زمانہ آیا تو انہیں مختلف قبائل کے حوالے کیا یہ قبائل ان بتوں کو اپنے اپنے علاقوں میں لے گئے اس طرح ہر ہر قبیلے میں پھر ہر ہر گھر میں ایک ایک بت ہو گیا اسی پر بس نہیں کی گئی اس کے بعد مشرکین نے مسجد حرام کو بھی بتوں سے بھر دیا چنانچہ جب مکہ فتح ہوا تو بیت اللہ اور اس کے گرداگرد تین سو ساٹھ بت تھے جن کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے توڑا آپ ہر ایک بت کو چھڑی سے ٹھوکر مارتے تو وہ گر جاتا
پھر آپ نے حکم دیا ان تمام بتوں کو مسجد حرام سے باہر نکال دو چنانچہ ان سارے بتوں کو مسجد حرام سے باہر نکال کر جلا دیا غرض شرک اور بت پرستی اہل جاہلیت کے دین کا سب سے بڑا مظہر بن چکی تھی اور ان لوگوں کو یہ گمنڈ بھی تھا کہ وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہیں پھر اہل جاہلیت کے یہاں بت پرستی کے کچھ طریقے بھی رائج تھے جو زیادہ تر عمرو بن لحی کے گھڑے ہوئے تھے یہ جاہل لوگ سمجھتے تھے کہ عمر و بن لحی کے طریقے دین ابراہیمی میں تبدیلی نہیں بلکہ بدعت حسنہ ہیں ان میں بت پرستی کی کیا کیا رسمیں رائج تھیں اس کی کچھ تفصیل بھی جان لیجیے
1 اس دور کے جاہل مشرک بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے اور انہیں زور زور سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کیلئے پکارتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ اللہ سے سفارش کر کے ہماری مراد پوری کرا دیں گے
2 وہ بتوں کے سامنے عجز و نیاز سے پیش آتے تھے اور انہیں سجدہ کرتے تھے۔
3 بتوں کیلئے نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے اور قربانی کے ان جانوروں کو کبھی بتوں کے آستانوں پر لے جا کر ذبح کرتے اور کبھی کسی اور جگہ ذبح کر لیتے تھے مگر بتوں کے نام ذبح کرتے تھے ذبح کی ان دونوں صورتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر تین میں کیا ہے یعنی وہ جانور بھی حرام ہیں جو آستانوں پر ذبح کیے گئے ہوں دوسری جگہ سورۃ الانعام کی آیت نمبر 121 میں فرماتے ہیں یعنی اس جانور کا گوشت مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو یہ تھے ان کے عقائد اور اعمال عرب اپنے بتوں کے ساتھ یہ سب کچھ اس عقیدے سے کرتے تھے کہ یہ انہیں اللہ کے قریب کر دیں گے اور اللہ کے حضور ان کی سفارش کر دیں گے چنانچہ مشرکین جو کہتے تھے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ زمر کی آیت نمبر 3 میں اس طرح تذکرہ کیا ہے ترجمہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں اسی طرح قرآن کریم کی سورۃ یونس آیت نمبر 18 میں یہ الفاظ آئے ہیں ترجمہ یہ مشرکین اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نفع پہنچا سکیں اور نہ نقصان اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
اس کے علاوہ مشرکین کے اور عقائد اور اعمال بھی تھے جن کا ذکر کریں تو بات شاید بہت لمبی ہو جائے اس لیے بات کو تھوڑا مختصر کرتا ہوں کیونکہ میرا مقصد آج کے نام نہاد مسلمانوں کو شرک سے آگاہ کرنا ہے
یہاں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ صحیح بخاری کی وہ دو احادیث بیان کروں جس میں ود سواع یغوث یعوق اور نسر کا اور لات اور عزیٰ کا ذکر ہے تانکہ تھوڑی مزید وضاحت ہو جائے۔
پہلی حدیث:
حدثنا إبراهيم بن موسى، ‏‏‏‏‏‏اخبرنا هشام، ‏‏‏‏‏‏عن ابن جريج، ‏‏‏‏‏‏وقال عطاء:‏‏‏‏ عن ابن عباس رضي الله عنهما، ‏‏‏‏‏‏صارت الاوثان التي كانت في قوم نوح في العرب بعد اما ود كانت لكلب بدومة الجندل، ‏‏‏‏‏‏واما سواع كانت لهذيل، ‏‏‏‏‏‏واما يغوث فكانت لمراد، ‏‏‏‏‏‏ثم لبني غطيف بالجوف عند سبإ، ‏‏‏‏‏‏واما يعوق فكانت لهمدان، ‏‏‏‏‏‏واما نسر فكانت لحمير لآل ذي الكلاع، ‏‏‏‏‏‏اسماء رجال صالحين من قوم نوح، ‏‏‏‏‏‏فلما هلكوا اوحى الشيطان إلى قومهم ان انصبوا إلى مجالسهم التي كانوا يجلسون انصابا وسموها باسمائهم، ‏‏‏‏‏‏ففعلوا فلم تعبد حتى إذا هلك اولئك، ‏‏‏‏‏‏وتنسخ العلم عبدت".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے اور عطاء نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جو بت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے۔ ود دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا۔ سواع بنی ہذیل کا۔ یغوث بنی مراد کا اور مراد کی شاخ بنی غطیف کا جو وادی اجوف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے یعوق بنی ہمدان کا بت تھا۔ نسر حمیر کا بت تھا جو ذوالکلاع کی آل میں سے تھے۔ یہ پانچوں نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی موت ہو گئی تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھے تھے ان کے بت قائم کر لیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے بت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی۔ (صحيح بخاري، كتاب التفسير، حدیث نمبر: 4920)
دوسری حدیث:
حدثنا مسلم بن إبراهيم، ‏‏‏‏‏‏حدثنا ابو الاشهب، ‏‏‏‏‏‏حدثنا ابو الجوزاء، ‏‏‏‏‏‏عن ابن عباس رضي الله عنهما، ‏‏‏‏‏‏في قوله:‏‏‏‏ اللات والعزى سورة النجم آية 19 كان اللات رجلا يلت سويق الحاج".
ہم سے مسلم بن ابراہیم فراہیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاشھب جعفر بن حیان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالجوزاء نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لات اور عزیٰ کے حال میں کہا کہ لات ایک شخص کو کہتے تھے وہ حاجیوں کے لیے ستو گھولتا تھا۔ ( صحيح بخاري، كتاب التفسير، حدیث نمبر: 4859)
دیکھا آپ نے کس طرح اللہ کے بندوں کے نام کے بت بنائے گئے پھر انہیں مصائب و مشکلات میں پکارا گیا اور ان کے نام کی نذر ونیاز دی گئی اور انہیں اپنا سفارشی سمجھا گیا۔ بت تو صرف پتھر کی ایک ظاہری شکل و صورت تھی مشرکین یہ نہیں کہتے تھے کہ فلاں بت یا پتھر میری مدد کر بلکہ وہ بت جن لوگوں کی طرف منسوب کیے گئے تھے وہ انہیں ہی پکارتے تھے
اس لیے اللہ تعالٰی نے فرمایا:
اِنَّ الَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمۡثَالُـكُمۡ‌ فَادۡعُوۡهُمۡ فَلۡيَسۡتَجِيۡبُوۡا لَـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ
ترجمہ:
(مشرکو) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم ان کو پکارو اگر سچے ہو تو چاہیئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں
(سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 194)
ایک اور جگہ فرمایا
اَفَحَسِبَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنۡ يَّتَّخِذُوۡا عِبَادِىۡ مِنۡ دُوۡنِىۡۤ اَوۡلِيَآءَ‌ ؕ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا جَهَـنَّمَ لِلۡكٰفِرِيۡنَ نُزُلًا‏
کیا کافر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا (اپنا) کارساز بنائیں گے (تو میں خفا نہیں ہوں گا) ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے جہنم کی (مہمانی) تیار کر رکھی ہے
(سورۃ 18 الکہف آیت نمبر 102)
ایک اور جگہ فرمایا
قُلِ ادۡعُوا الَّذِيۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ فَلَا يَمۡلِكُوۡنَ كَشۡفَ الضُّرِّ عَنۡكُمۡ وَلَا تَحۡوِيۡلًا اُولٰۤئِكَ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ يَبۡتَغُوۡنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الۡوَسِيۡلَةَ اَيُّهُمۡ اَقۡرَبُ وَيَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَهٗ وَيَخَافُوۡنَ عَذَابَهٗؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحۡذُوۡرًا
ترجمہ:
کہو کہ (مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے یہ لوگ جن کو (اللہ کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (اللہ کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے
( سورۃ نمبر 17 الإسراء آیت نمبر 57٬56)
مندرجہ بالا آیات میں مشرکوں کو متنبہ کیا گیا ہے اور ذیل کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کا وہ منظر کھینچا ہے جب مشرک اور شریک آمنے سامنے ہوں گے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے
ترجمہ:
اور وه دن بھی قابل ذکر ہے جس روز ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھہرو، پھر ہم ان کے آپس میں پھوٹ ڈال دیں گے اور ان کے وه شرکا کہیں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے,سو ہمارے تمہارے درمیان اللہ کافی ہے گواه کے طور پر، کہ ہم کو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی اس مقام پر ہر شخص اپنے اگلے کیے ہوئے کاموں کی جانچ کرلے گا اور یہ لوگ اللہ کی طرف جو ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور جو کچھ جھوٹ باندھا کرتے تھے سب ان سے جاتا رہے گا
( سورة يونس آیت نمبر: 30-28)
ترجمہ:
اور جس دن اللہ تعالیٰ انہیں اور سوائے اللہ کے جنہیں یہ پوجتے رہے، انہیں جمع کر کے پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراه کیا تھا یا یہ خود ہی گمراہ ہوگئے تھے؟ وه جواب دیں گے کہ تو پاک ہے خود ہمیں ہی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا اوروں کو اپنا کارساز بناتے بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو آسودگیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ وه نصیحت بھلا بیٹھے،اور یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے تو (مشرکو) انہوں نے تو تمہیں تمہاری تمام باتوں میں جھٹلایا، اب نہ تو تم میں عذابوں کے پھیرنے کی طاقت ہے، نہ مدد کرنے کی، تم میں سے جس جس نےظلم(شرک) کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے
( سورة الفرقان آیت نمبر: 19-17)
اب بھی اگر کوئی شخص کہے کہ بتوں کو پکارنے والا تو مشرک ہو سکتا ہے لیکن اولیاء اللہ کو پکارنے والا مشرک نہیں ہو سکتا تو صریح غلطی پر ہے کیونکہ وہ بت بھی اللہ کے بندوں کے ہی بنائے گئے تھے جنہیں مشرکین پکارتے تھے اور ان میں اکثر بت تو اولیاء اللہ کے نام کے ہی بنائے گئے تھے،
قرآن کے مطابق اگر مشرکوں نے نیک لوگوں کی عبادت کی ہو گی تو نیک لوگ قیامت کے دن اپنے پوجنے والوں کے خلاف ہو جائیں گے پھر مشرکوں کو تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا جبکہ نیک لوگوں کو بچا لیا جائے گا اور اگر مشرکوں نے اپنے جیسے مشرکوں یا کافروں کی عبادت کی ہو گی تو مشرکوں اور شریکوں دونوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
آخری بات کہہ کر بات کو ختم کرتا ہوں
اے میرے مسلمان بھائیو! شیطان مردود کے نقشِ قدم پر نہ چلو حق کو پہچانو اور اسے قبول کرو آج وقت ہے ورنہ کل ہمیشہ کیلئے شیطان مردود کے ساتھ تم بھی جہنم میں جلتے رہو گے تمہارا صرف یہ کہہ دینا کہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں کافی نہیں بلکہ تمہیں عبادت کی تمام قسموں کو بھی اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کرنا ہو گا حدیث میں ہے کہ دعا عبادت ہے تو تمہیں غائبانہ حاجات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارنا ہے،اسی طرح نذر ونیاز، قربانی، رکوع سجود،توکل،غائبانہ ڈر بھی عبادت کی قسمیں ہیں انہیں بھی اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کرنا ہوگا۔ نذر ونیاز اور قربانی کے حوالے سے لوگوں کے ذہن میں ایک بات یہ بھی آتی ہے کہ ہم جب کسی جانور کو کسی مزار پر لے جاتے ہیں تو اس کے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ مزار یا قبر پر وہی جانور کو لے کر جاتا ہے جس نے نذر مانی ہو جبکہ اسلام میں اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے نذر ماننا حرام ہے دوسری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر لعنت کی ہے جو اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے جانور ذبح کرے (صحیح مسلم)۔ تیسری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام میں عقر نہیں ہے یعنی قبروں پر لے جا کر جانوروں کو ذبح کرنا اسلام میں نہیں ہے چوتھی اور آخری بات چاہئے کوئی جانور مزار پر لے جا کر ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لے لیکن اس کا مزار پر لے جا کر ذبح کرنا اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا ہے تانکہ صاحب قبر اس سے خوش ہو اور اس کی مراد پوری کر دے یا کرا دے یہ شرکیہ فعل ہے اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو شرک سے بچائے آمین یارب العالمین۔
#از اویس تبسم