حلالہ اور حلال نکاح میں فرق حلال نکاح نیز طلاق کیسے دی جائے

طلاق کیسے دی جائے
(از اویس تبسم)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي* وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي* وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي * يَفْقَهُوا قَوْلِي
جب میاں بیوی میں ایسی نااتفاقی پیدا ہو جائے جس سے خاندان کی تباہی اور زندگی کے امن و سکون کی بربادی کا خطرہ لاحق ہو اور زوجین کے درمیان حدود اللہ کا قیام ناممکن ہو جائے تو شوہر کو اختیار ہے کہ بیوی کو اس طہر کی حالت میں ایک طلاق دے جس میں اس نے بیوی سے مقاربت نہ کی ہو۔یہ ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اور عدت کے اندر شوہر کو رجعت کا حق حاصل ہوگا یعنی اس مدت میں بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے۔یہ تین ماہ کی مدت ہے جس میں زوجین کو سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کا موقع ملے گا۔
فرمان باری تعالیٰ ہے
وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْۗءٍ
اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو وہ تین مرتبہ حیض آنے تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں (سورۃ البقرہ 228)
ایک اور جگہ فرمایا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحْصُواالْعِدَّةَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ
اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو ، اور عدت کو اچھی طرح شمار کرو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے، ان عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں الا یہ کہ وہ کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کریں٬ (سورۃ الطلاق 1)
(عدت کے دوران شوہر کے ذمے واجب ہے کہ جس بیوی کو طلاق دی ہے اس کو اپنے گھر میں رہائش فراہم کرے، اور عورت کے ذمے بھی یہ واجب ہے کہ وہ شوہر ہی کے گھر میں عدت گزارے، اور کہیں نہ جائے، البتہ اللہ تعالیٰ نے وہ صورت اس سے مستثنی فرمادی ہے جب عورت کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرے)
ایام عدت میں عورت مرد کے گھر میں ہی رہے گی اور کوئی بھی دوسرا مرد اس کو نکاح کا پیغام نہیں بھیج سکتا اس کے بعد اگر مرد اس عدت میں رجوع نہیں کرتا اور دوسری طلاق بھی دے دیتا ہے تو عورت کو اس کا گھر چھوڑنا ہو گا اب وہ اپنے والدین کے گھر میں رہے گی اب عورت آزاد ہو گی کوئی بھی اس کو نکاح کا پیغام بھیج سکتا ہے چاہے تو سابقہ شوہر بھی اب عورت کی اور اس کے گھر والوں کی مرضی ہے جہاں چاہیں اس کا نکاح کر دیں اگر سابقہ شوہر اور مطلقہ عورت جائز طور پر پھر نکاح کیلئے راضی ہو جاتے ہیں تو یہ نکاح کے زیادہ حقدار ہیں
فرمان باری تعالیٰ ہے
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْهَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دے دی ہو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو ( اے میکے والو) انہیں اس بات سے منع نہ کرو کہ وہ اپنے ( پہلے) شوہروں سے ( دوبارہ) نکاح کریں، بشرطیکہ وہ بھلائی کے ساتھ ایک دوسرے سے راضی ہوگئے ہوں۔ ان باتوں کی نصیحت تم میں سے ان لوگوں کو کی جارہی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں۔ یہی تمہارے لیے زیادہ ستھرا اور پاکیزہ طریقہ ہے، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرہ 232)
اگر سابقہ شوہر مطلقہ عورت سے نکاح نہیں کرتا اور تیسری طلاق بھی دے دیتا ہے تو اب وہ اس سے نکاح نہیں کر سکتا الا یہ کہ مطلقہ عورت کسی دوسرے مرد کے نکاح میں چلی جائے اور زندگی کے کسی موڑ پر وہ بھی اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دی یا فوت ہو جائے تو عورت عدت گزارنے کے بعد سابقہ شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔
آخر کلام رب العالمین کے فرامین کو توجہ سے سنیں اور ان پر عمل کریں اور اس کی نافرمانیوں سے بچیں
1)اگر طلاق دینا ضروری ہی ہے تو ایک وقت میں صرف ایک طلاق دیں
2) ایک مجلس میں تین طلاقیں دے کر رب کی نافرمانی نہ کریں
3)حلالہ جیسی لعنت سے بچیں
فرمان باری تعالیٰ ہے
اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا سخت حساب لیا، اور انہیں سزا دی، ایسی بری سزا جو انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔
چنانچہ انہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھا، اور ان کے اعمال کا آخری انجام نقصان ہی نقصان ہوا۔
(اور آخرت میں) ہم نے ان کے لیے ایک سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ لہذا اے عقل والو جو ایمان لے آئے ہو، اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ نے تمہارے پاس ایک سراپا نصیحت بھیجی دی ہے۔(سورۃ الطلاق 8-10)