کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مدد کیلئے پکارنا شرک ہے؟

دعوت توحید Dawat e tawheed
کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مدد کیلئے پکارنا شرک ہے؟
یہ سوال بہت سے لوگوں کے ذہن میں گھومتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کو مدد کیلئے پکارنا کیسے شرک ہو سکتا ہے؟ حالانکہ ہم دوستوں کو پکارتے ہیں ماں باپ کو پکارتے ہیں اور جانے انجانے لوگوں سے مدد کی ضرورت پڑتی رہی ہے اگر کسی کو مدد کیلئے پکارنا شرک ہے تو پھر تو کوئی بھی انسان شرک سے نہیں بچ سکتا. میں یہاں قرآن کی چند آیات پیش کرتا ہوں آپ ان میں غور وفکر کریں اور بتائیں کے وہ کونسی مدد جس سے اللہ تعالیٰ ہمیں روک رہے ہیں۔ کیا وہ یہی مدد جو ہم روز مرہ زندگی میں ماتحت الاسباب ایک دوسرے سے حاصل کرتے ہیں یا اور کوئی ہے؟
فرمان باری تعالیٰ ہے
وَٱلَّذِينَ تَدۡعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسۡتَطِيعُونَ نَصۡرَكُمۡ وَلَآ أَنفُسَهُمۡ يَنصُرُونَ ( الاعراف 197)
اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تمہاری ہی مدد کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ خود ہی اپنی مدد کرسکتے ہیں
یہاں لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ آیت شاید بتوں کیلئے ہے کہ ان کو پکارنا بیکار ہے کیونکہ وہ پتھر کے بنے ہوتے ہیں اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے انہوں نے کسی کی کیا مدد کرنی ہے اس لیے ان سے مدد مانگنے سے منع کیا جا رہا ہے حلانکہ ایسا نہیں کوئی بھی مشرک پتھر یا مجسمے کو مدد کیلئے نہیں پکارتا بلکہ ان مجسموں سے منسوب ہستیوں کو پکارتا ہے جیساکہ آپ کو پتہ ہے کہ قوم نوح علیہ السلام نے اللہ کے نیک بندوں کے بت بنا لیے تھے (صحیح بخاری) اور وہ اتنے مشہور ہوئے کہ ہر دور میں ان کو پکارا جانے لگا یہاں تک کہ لوگ انہیں عرب میں بھی لے آئے اور مخلتف جگہوں پر نصب کر کے انہیں مدد کیلئے پکارتے رہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بتوں کو پکارنا شرک ہے اور اللہ کے نیک بندوں کو پکارنا ٹھیک ہے تو یہ تو اللہ تعالیٰ کے نیک بندے تھے پھر کیوں کسی پیغمبر نے یہ نہیں کہا کہ آپ ود،سواع،یعوق،یغوث اور نسر کو پکار سکتے ہیں؟ حبل، لات منات جیسوں کو نہیں
فرمان باری تعالیٰ ہے
وَقَالُواْ لَا تَذَرُنَّ ءَالِهَتَكُمۡ وَلَا تَذَرُنَّ وَدّٗا وَلَا سُوَاعٗا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسۡرٗا (سورۃ نوح 23)
اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی نہ چھوڑنا
وَقَدۡ اَضَلُّوۡا كَثِيۡرًا‌ ‌ ۚ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا ضَلٰلًا
(پروردگار) انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے۔ تو تُو ان کو اور گمراہ کردے
مِّمَّا خَطِٓيْئٰتِهِمۡ اُغۡرِقُوۡا فَاُدۡخِلُوۡا نَارًا ۙ فَلَمۡ يَجِدُوۡا لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَنۡصَارا
(آخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب پہلے غرقاب کردیئے گئے پھر آگ میں ڈال دیئے گئے۔ تو انہوں نے اللہ کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہ پایا
کیسا برا انجام ہوا اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو غائبانہ حاجات میں پکارنے والوں کا
یہ تو تھی تھوڑی سی وضاحت اب چلتے ہیں اگلی آیت کی طرف فرماں باری تعالیٰ ہے إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدۡعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمۡثَالُكُمۡۖ فَٱدۡعُوهُمۡ فَلۡيَسۡتَجِيبُواْ لَكُمۡ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ (الاعراف 194) (مشرکو) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم ان کو پکارو اگر سچے ہو تو چاہیئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں لیجیے اس آیت میں مزید وضاحت آ گئی کہ مشرک بتوں یعنی پتھروں کو نہیں بلکہ پتھروں سے منسوب ہستیوں کو پکارتے تھے اگر انہوں نے پتھروں سے مدد مانگنی ہوتی تو بڑے بڑے پہاڑوں کو پکار لیتے ۔ لیجیے ایک اور آیت پیش نظر ہے أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ يَدۡعُونَ يَبۡتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ ٱلۡوَسِيلَةَ أَيُّهُمۡ أَقۡرَبُ وَيَرۡجُونَ رَحۡمَتَهُۥ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُۥٓۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحۡذُورٗا ٥٧ یہ لوگ جن کو (اللہ کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (اللہ کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے یہاں یہ بات واضح ہے کہ مشرک اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور فرشتوں کو غائبانہ حاجات میں پکارتے تھے اور اللہ تعالیٰ ہمیں بتا رہے ہیں کہ وہ تو خود اسے پکارنے والے اور اس سے ڈرنے والے ہیں اب چلتے ہیں اس بات کی طرف کہ کیوں اللہ تعالیٰ دوسروں سے مدد مانگنے کو شرک کہہ رہے ہیں اور اس سے منع فرما رہے ہیں یہاں عام انسان کے ذہن میں تھوڑی کنفیوژن پیدا ہو جاتی ہے حلانکہ یہ انسان کی اپنی کم عقلی ہے قرآن میں تو سب کچھ واضح ہے قرآن میں کوئی بھی ایسی آیت نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ اپنے جیسوں یعنی اپنے سامنے موجود بہن بھائیوں اور جانے آنے والوں کو مدد کیلئے پکارنا شرک ہے اللہ تعالیٰ تو یہ فرما رہے ہیں وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ)۲() (پ۶،المآئدۃ: ۲) اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
قرآن میں جب بھی غیر اللہ کو پکارنے کی ممانعت آئی ہے تو اس کا مطلب غائبانہ حاجات میں کسی کو پکارنا ہے ماتحت الاسباب آپ ایک دوسرے سے مدد طلب کر سکتے ہیں جبکہ مافوق الاسباب کسی سے مدد مانگنا شرک کے زمرے میں آئے گا۔ آج ان باتوں کو سمجھنے کیلئے ہمارے پاس وقت ہے لیکن آخرت میں ہمارے پاس وقت نہیں ہوگا اور ہمارا کوئی بھی عذر قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو راہ راست پر لانے کیلئے پیغمبر بھیج دیے اور کتابیں نازل کر دی اور یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ وہ شرک کی حالت میں وفات پانے والوں کو کبھی نہیں بخشے گا اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین