رب کی پہچان

رب کی پہچان
اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا وہ اول بھی ہے وہ آخر بھی ہے کوئی بھی اس کی برابری کا نہیں، کائنات کی تخلیق سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا،
فرمان باری تعالیٰ ہے
وَ هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَ يَّامٍ وَّكَانَ عَرۡشُهٗ عَلَى الۡمَآءِ۔۔۔
ترجمہ: اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔۔۔ (سورۃ ھود آیت 7)
پھر بلند ہوا اور عرش پر جلوہ افروز ہوا، اس کے عرش کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں ایک فرشتے کی کان کی لو سے لے کر کندھے تک کی مسافت سات سو برس کی ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے سنن ابي داود، حدیث نمبر: 4727  (صحيح)
فرمان باری تعالیٰ ہے
اَلَّذِيۡنَ يَحۡمِلُوۡنَ الۡعَرۡشَ وَمَنۡ حَوۡلَهٗ يُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَيُؤۡمِنُوۡنَ بِهٖ وَيَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا‌ ۚ رَبَّنَا وَسِعۡتَ كُلَّ شَىۡءٍ رَّحۡمَةً وَّعِلۡمًا فَاغۡفِرۡ لِلَّذِيۡنَ تَابُوۡا وَاتَّبَعُوۡا سَبِيۡلَكَ وَقِهِمۡ عَذَابَ الۡجَحِيۡمِ ۞
ترجمہ: جو لوگ عرش کو اٹھائے ہوئے اور جو اس کے گردا گرد (حلقہ باندھے ہوئے) ہیں (یعنی فرشتے) وہ اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور مومنوں کے لئے بخشش مانگتے رہتے ہیں۔ کہ اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیرے رستے پر چلے ان کو بخش دے اور دوزخ کے عذاب سے بچالے (سورۃ غافر آیت 7)
وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ اور تیرے پروردگار کا عرش اس دن آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے (69-الحاقة:17)
(اس آیت مبارکہ میں فرشتوں کی تعداد کا ذکر ہے کہ روز قیامت آٹھ فرشتے رب کے عرش کو اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہونگے ۔)  
شبہات کا ازالہ
کچھ لوگوں نے من گھڑت باتیں لوگوں میں پھیلا رکھی ہیں کہ فرشتے سدرہ المنتہیٰ کے آگے نہیں جاتے کیونکہ ان کے پر جل جاتے ہیں
فرشتے کبھی بھی اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے جو انہیں حکم دیا جاتا ہے وہ وہی کرتے ہیں، پَر تو تب جلیں جب وہ اپنے رب کی نافرمانی کرنے والے ہوں۔
وہ سنتا ہے کہ اس کی مثل کوئی سن نہیں سکتا وہ دیکھتا ہے کہ اس کی مثل کوئی دیکھ نہیں سکتا وہ عرش پر ہوتے ہوئے بھی اپنی مخلوقات کے دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں تک کا جاننے والا ہے وہ باریک بین ہے کہ کوئی بھی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ، اگر ایک ہی وقت میں اس کی تمام کی تمام مخلوقات سوال کرے تو وہ اسی وقت سب کی حاجتیں پوری کرنے پر قادر ہے اور اس کے خزانوں میں کبھی کچھ کمی نہیں ہو سکتی
حدیث قدسی میں فرمان باری تعالیٰ ہے
اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، آدمی اور جنات سب ایک میدان میں کھڑے ہوں، پھر مجھ سے مانگنا شروع کریں اور میں ہر ایک کو جو مانگے سو دوں تب بھی میرے پاس جو کچھ ہے وہ کم نہ ہو گا مگر اتنا جیسے دریا میں سوئی ڈبو کر نکال لو۔۔
اس نے فرشتے پیدا کئے جن کی تعداد انسانوں سے کئی گنا زیادہ ہے اور کوئی بھی اس کی نافرمانی نہیں کر سکتا
جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر قیامت تک ان کی باری نہیں آئے گی ۔ ( صحیح مسلم 416)
اسے کسی نے نہیں دیکھا ہاں اس کا دیدار جنتوں کیلئے خاص ہے
فرمان باری ہے
قَالَ لَنْ تَرَانِي (تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے) (سورۃ الاعراف 143)
(جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کو دیکھنے کی خواہش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے)
فرمان باری تعالیٰ ہے
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے مگر الہام (کے ذریعے) سے یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے تو وہ اللہ کے حکم سے جو اللہ چاہے القا کرے۔ بےشک وہ عالی رتبہ (اور) حکمت والا ہے۔
(یہاں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی پیغمبر کے روبرو ہو کر بات نہیں بلکہ پردے کی پیچھے سے کی یا الہام کے ذریعے یا فرشتہ بھیج کر پیغام پہنچایا ۔)
مسروق کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا: اے ابو عائشہ! تین امور ہیں، ان میں سے ایک کا قائل ہونے کا مطلب اللہ تعالیٰ پر جھوٹا الزام لگانا ہو گا۔ میں نے کہا وہ کون سے امور ہیں؟ انہوں نے کہا جس آدمی کا یہ خیال ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ربّ کو دیکھا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا۔ میں ٹیک لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر میں بیٹھ گیا اور کہا: اے ام المؤمنین! ذرا مجھے مہلت دیجئے اور جلدی مت کیجئیے، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ‏‏‏‏
وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ اور تحقیق اس نے اس کو واضح افق میں دیکھا۔“ (۸۱-التكوير:۲۳)
وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى اور تحقیق اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔“ (۵۳-النجم:۱۳)
(‏‏‏‏ان آیات سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کو دیکھا ہے)؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس امت میں میں نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آیات کے بارے میں سوال کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ جواب دیا ”یہ تو جبریل تھا، میں نے اسے اس کی اصلی حالت میں دو مرتبہ دیکھا، میں نے اسے آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، اس کی بڑی جسامت نے آسمان و زمین کے درمیانی خلا کو بھر رکھا تھا۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا:
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
آنکھیں اس اللہ کا ادراک نہیں کر سکتیں، لیکن وہ آنکھوں کا ادراک کر لیتا ہے اور وہ تو باریک بیں اور باخبر ہے۔“ (۶-الأنعام:۱۰۳) نیز آپ نے یہ ارشاد باری تعالیٰ نہیں سنا:
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
‏‏‏ ”اور ناممکن ہے کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جو چاہے وحی کرے، بیشک وہ برتر ہے حکمت والا ہے۔“ (۴۲-الشورى:۵۱)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اور جس نے یہ گمان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے بعض احکام چھپائے ہیں تو اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹا الزام دھر دیا،
حالانکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
”‏‏‏‏اے رسول! جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تیری طرف نازل کیا گیا، اسے آگے پہنچا دو، اگر تم نے ایسے نہ کیا تو (‏‏‏‏اس کا مطلب یہ ہو گا کہ) تم نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا۔“ (۵-المائدة:۶۷)
پھر انہوں نے کہا: اور جس نے یہ گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ کل میں ہونے والے امور کی خبر دیتے ہیں تو اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ”کہہ دیجئیے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی غیب نہیں جانتا۔“ (۲۷-النمل:۶۵)۔
سلسله احاديث صحيحه، حدیث نمبر: 3801
شبہات کا ازالہ
کچھ جہل قسم کے علماء نے یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ملاقات مسروق سے ہوئی اس وقت وہ بہت چھوٹی تھیں ، حالانکہ کہ مسروق ایک تابعی تھے یعنی ان کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر مبارک تقریباً تائیس سال تھی اور یہ ملاقات تو اس کے بعد ہی کسی برس میں ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے ایسی ایسی مخلوقات پیدا کی جہنیں ہم دیکھ سکتے ہیں اور جنہیں نہیں بھی دیکھ سکتے سب کو وہی کھلا پلا رہا ہے۔ کوئی اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کر سکتا
فرمان باری تعالیٰ ہے
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَشۡفَعُ عِنۡدَهٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِهٖ‌ؕ
کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے۔ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 255)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرنے والا ہے اور یہ محبت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں انبیاء ورسل اور صالحین کو اپنے بندوں  کے حق میں سفارش کی اجازت دے گا تانکہ انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے ورنہ کوئی بھی اپنی مرضی سے کسی کی سفارش نہ کر سکتا۔
اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔
فرمان باری تعالیٰ ہے
قل لا یعلم من فی السمٰوات والارض الغیب الا اﷲ
کہہ دیجئے کہ آسمانوں  اور زمین میں  اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں
شبہات کا ازالہ
کچھ لوگوں نے پیغمبروں اور اولیاء اللہ کو عالم الغیب سمجھا اور قرانی آیات کا غلط مطلب نکال کر لوگوں کو گمراہ کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں واضح طور پر فرما رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور پیغمبروں کی زبانوں سے بھی کہلوا رہا ہے کہ وہ غیب نہیں جانتے یہ تو مشرکین نے مشہور کر رکھا تھا کہ یہ پیغمبر غیب جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی باتوں کا رد کر رہے ہیں کہ یہ غیب نہیں جانتے بلکہ ان کی طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی جا رہی ہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ جہلاء کن آیات کا غلط مطلب نکال کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں
فرمان باری تعالیٰ ہے
’’وَ  مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیُطْلِعَكُمْ  عَلَى  الْغَیْبِ  وَ  لٰكِنَّ  اللّٰهَ  یَجْتَبِیْ  مِنْ  رُّسُلِهٖ  مَنْ  یَّشَآءُ  - ‘‘(آل عمران:۱۷۹)
اور القرآن - سورۃ نمبر 3 آل عمران آیت نمبر 179
ترجمہ: اور الله تم کوغیب کی باتوں سے بھی مطلع نہیں کرے گا البتہ اللہ اپنے پیغمبروں میں سے جسے چاہتا ہے انتخاب کرلیتا ہے۔
اس آیت کا مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے صرف پیغمبروں کو وحی کے ذریعے خبر دی ہے کہ آنے والے وقت میں کیا ہو گا قبر میں کیا ہو گا جہنم میں کیا ہو گا جنت میں کیا ہو گا عام لوگوں کو ان باتوں سے آگاہ نہیں کیا وحی کی مختلف قسمیں ہیں جن کے ذریعے اس نے پیغمبروں کو مطلع فرمایا تانکہ وہ لوگوں کو آنے والے عذاب سے آگاہ کر دیں اور لوگ یقین کر لیں کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو عالم الغیب بنا دیا زیادتی ہو گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں متعدد بار فرما چکا ہے کہ اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور پیغمبر بھی فرما چکے ہیں کہ ہمیں غیب کا علم نہیں بلکہ ہماری طرف وحی کی جاتی ہے
اللہ تعالیٰ نے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اور آخری نبی بنایا ان پر عظیم کتاب نازل کی انہیں رحمت العالمین بنایا انہیں نبیوں  کا سردار بنایا انہیں مقام محمود اور حوض کوثر عطا کیا دنیا اور آخرت میں ان پر رحمت و سلامتی نازل کی ان کے علاوہ بہت کچھ عطاء کیا اور کرتا رہے گا، عالم الغیب نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی شان میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔
ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
عٰلِمُ الۡغَيۡبِ فَلَا يُظۡهِرُ عَلٰى غَيۡبِهٖۤ اَحَدًا، اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰى مِنۡ رَّسُوۡلٍ
غیب (کی بات) جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا ،ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے سورۃ نمبر 72 الجن آیت نمبر 26،27
اوپر والی آیت میں لفظ یطلع استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے اطلاع دینا یعنی وحی کے ذریعے غیب کی باتوں کی اطلاع دینا ماضی میں کیا ہوا جیسے انبیاء کرام کے واقعات کا ذکر مستقبل میں کیا ہو گا جیسے عذاب قبر عذاب جہنم اور جنت کی نعمتوں کا ذکر وغیرہ اور اس آیت میں لفظ یظھر استعمال ہوا ہے جس کا مطلب غیب کو آنکھوں کے سامنے کر دینا اللہ تعالیٰ نے مختلف موقعوں پر غیب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے ظاہر کر دیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”جب قریش نے مجھے جھوٹا قرار دیا تو میں حطیم میں کھڑا ہوا۔ میرے سامنے پورا بیت المقدس کر دیا گیا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا۔ صحيح بخاري، حديث نمبر:4710
صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے جس کا مختصر یہ ہے کہ
لوگوں نے کہا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے اپنے کھڑےہونے کی اس جگہ پر کوئی چیز لینے کی کوشش کی، پھرہم نے دیکھاکہ آپ رک گئے۔آپ نے فرمایا: "میں نے جنت دیکھی اور میں نے اس میں سے ایک گچھہ لینا چاہا اور اگر میں اس کو پکڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس میں سے کھاتے رہتے (اور) میں نے جہنم دیکھی، میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا صحيح مسلم، حدیث نمبر: 2109
اسی طرح شب معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے ظاہر کر دیا ۔
ایک اور آیت جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ‘‘(التکویر: ۲۴) یہ نبی غیب کے بتانے میں  بخیل نہیں ۔ اس آیت کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ نے جو بھی غیب کی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائیں آپ نے اس میں بخل سے کام نہیں لیا بلکہ اسے امت تک پہنچا دیا تانکہ لوگ آخرت کی تیاری کر سکیں۔
واللہ اعلم بالصواب
(🖋️اویس تبسم راجہ)

کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مدد کیلئے پکارنا شرک ہے؟

دعوت توحید Dawat e tawheed
کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مدد کیلئے پکارنا شرک ہے؟
یہ سوال بہت سے لوگوں کے ذہن میں گھومتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کو مدد کیلئے پکارنا کیسے شرک ہو سکتا ہے؟ حالانکہ ہم دوستوں کو پکارتے ہیں ماں باپ کو پکارتے ہیں اور جانے انجانے لوگوں سے مدد کی ضرورت پڑتی رہی ہے اگر کسی کو مدد کیلئے پکارنا شرک ہے تو پھر تو کوئی بھی انسان شرک سے نہیں بچ سکتا. میں یہاں قرآن کی چند آیات پیش کرتا ہوں آپ ان میں غور وفکر کریں اور بتائیں کے وہ کونسی مدد جس سے اللہ تعالیٰ ہمیں روک رہے ہیں۔ کیا وہ یہی مدد جو ہم روز مرہ زندگی میں ماتحت الاسباب ایک دوسرے سے حاصل کرتے ہیں یا اور کوئی ہے؟
فرمان باری تعالیٰ ہے
وَٱلَّذِينَ تَدۡعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسۡتَطِيعُونَ نَصۡرَكُمۡ وَلَآ أَنفُسَهُمۡ يَنصُرُونَ ( الاعراف 197)
اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تمہاری ہی مدد کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ خود ہی اپنی مدد کرسکتے ہیں
یہاں لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ آیت شاید بتوں کیلئے ہے کہ ان کو پکارنا بیکار ہے کیونکہ وہ پتھر کے بنے ہوتے ہیں اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے انہوں نے کسی کی کیا مدد کرنی ہے اس لیے ان سے مدد مانگنے سے منع کیا جا رہا ہے حلانکہ ایسا نہیں کوئی بھی مشرک پتھر یا مجسمے کو مدد کیلئے نہیں پکارتا بلکہ ان مجسموں سے منسوب ہستیوں کو پکارتا ہے جیساکہ آپ کو پتہ ہے کہ قوم نوح علیہ السلام نے اللہ کے نیک بندوں کے بت بنا لیے تھے (صحیح بخاری) اور وہ اتنے مشہور ہوئے کہ ہر دور میں ان کو پکارا جانے لگا یہاں تک کہ لوگ انہیں عرب میں بھی لے آئے اور مخلتف جگہوں پر نصب کر کے انہیں مدد کیلئے پکارتے رہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بتوں کو پکارنا شرک ہے اور اللہ کے نیک بندوں کو پکارنا ٹھیک ہے تو یہ تو اللہ تعالیٰ کے نیک بندے تھے پھر کیوں کسی پیغمبر نے یہ نہیں کہا کہ آپ ود،سواع،یعوق،یغوث اور نسر کو پکار سکتے ہیں؟ حبل، لات منات جیسوں کو نہیں
فرمان باری تعالیٰ ہے
وَقَالُواْ لَا تَذَرُنَّ ءَالِهَتَكُمۡ وَلَا تَذَرُنَّ وَدّٗا وَلَا سُوَاعٗا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسۡرٗا (سورۃ نوح 23)
اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی نہ چھوڑنا
وَقَدۡ اَضَلُّوۡا كَثِيۡرًا‌ ‌ ۚ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا ضَلٰلًا
(پروردگار) انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے۔ تو تُو ان کو اور گمراہ کردے
مِّمَّا خَطِٓيْئٰتِهِمۡ اُغۡرِقُوۡا فَاُدۡخِلُوۡا نَارًا ۙ فَلَمۡ يَجِدُوۡا لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَنۡصَارا
(آخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب پہلے غرقاب کردیئے گئے پھر آگ میں ڈال دیئے گئے۔ تو انہوں نے اللہ کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہ پایا
کیسا برا انجام ہوا اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو غائبانہ حاجات میں پکارنے والوں کا
یہ تو تھی تھوڑی سی وضاحت اب چلتے ہیں اگلی آیت کی طرف فرماں باری تعالیٰ ہے إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدۡعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمۡثَالُكُمۡۖ فَٱدۡعُوهُمۡ فَلۡيَسۡتَجِيبُواْ لَكُمۡ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ (الاعراف 194) (مشرکو) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم ان کو پکارو اگر سچے ہو تو چاہیئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں لیجیے اس آیت میں مزید وضاحت آ گئی کہ مشرک بتوں یعنی پتھروں کو نہیں بلکہ پتھروں سے منسوب ہستیوں کو پکارتے تھے اگر انہوں نے پتھروں سے مدد مانگنی ہوتی تو بڑے بڑے پہاڑوں کو پکار لیتے ۔ لیجیے ایک اور آیت پیش نظر ہے أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ يَدۡعُونَ يَبۡتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ ٱلۡوَسِيلَةَ أَيُّهُمۡ أَقۡرَبُ وَيَرۡجُونَ رَحۡمَتَهُۥ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُۥٓۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحۡذُورٗا ٥٧ یہ لوگ جن کو (اللہ کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (اللہ کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے یہاں یہ بات واضح ہے کہ مشرک اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور فرشتوں کو غائبانہ حاجات میں پکارتے تھے اور اللہ تعالیٰ ہمیں بتا رہے ہیں کہ وہ تو خود اسے پکارنے والے اور اس سے ڈرنے والے ہیں اب چلتے ہیں اس بات کی طرف کہ کیوں اللہ تعالیٰ دوسروں سے مدد مانگنے کو شرک کہہ رہے ہیں اور اس سے منع فرما رہے ہیں یہاں عام انسان کے ذہن میں تھوڑی کنفیوژن پیدا ہو جاتی ہے حلانکہ یہ انسان کی اپنی کم عقلی ہے قرآن میں تو سب کچھ واضح ہے قرآن میں کوئی بھی ایسی آیت نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ اپنے جیسوں یعنی اپنے سامنے موجود بہن بھائیوں اور جانے آنے والوں کو مدد کیلئے پکارنا شرک ہے اللہ تعالیٰ تو یہ فرما رہے ہیں وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ)۲() (پ۶،المآئدۃ: ۲) اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
قرآن میں جب بھی غیر اللہ کو پکارنے کی ممانعت آئی ہے تو اس کا مطلب غائبانہ حاجات میں کسی کو پکارنا ہے ماتحت الاسباب آپ ایک دوسرے سے مدد طلب کر سکتے ہیں جبکہ مافوق الاسباب کسی سے مدد مانگنا شرک کے زمرے میں آئے گا۔ آج ان باتوں کو سمجھنے کیلئے ہمارے پاس وقت ہے لیکن آخرت میں ہمارے پاس وقت نہیں ہوگا اور ہمارا کوئی بھی عذر قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو راہ راست پر لانے کیلئے پیغمبر بھیج دیے اور کتابیں نازل کر دی اور یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ وہ شرک کی حالت میں وفات پانے والوں کو کبھی نہیں بخشے گا اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

زمین پر کوئی بھی جاندار ایسا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔

دعوت توحید Dawat e tawheed

وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا
زمین پر کوئی بھی جاندار ایسا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔ (سورۃ ہود آیت نمبر 06)
اللہ عزوجل نے جو بھی جاندار چیز پیدا کی اس کی خوراک کا بندوبست بھی کیا، انسانوں کیلئے انواع و اقسام کے پھل میوے سبزیاں اور اناج اگائے ، چرنے والے جانوروں کیلئے گھاس پھوس پیدا کی، خونخوار جانوروں کیلئے گوشت کا بندوبست کیا، پرندوں کیلئے کیڑے مکوڑے غرض ہر قسم کے جانداروں کیلئے اس نے خوراک کا بندوبست کیا ہے اور قیامت تک اسی کے ذمے ہے۔

اسلام سے پہلے عرب (اولیاء اللہ ود سواع یعوق یغوث نسر)

دعوت توحید Dawat e tawheed

عرب کے عام باشندے اسماعیل علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں دین ابراہیم کے پیروکار تھے اس لیے صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے اور توحید پر کاربند تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اللہ کے احکامات کو بھلا دیا پھر بھی ان کے اندر توحید اور دین ابراہیمی کے کچھ آثار باقی رہے کچھ شعائر پر وہ عمل پیرا رہے یہاں تک کہ بنو خزاعہ کا سردار عمرو بن لحی منظر عام پر آیا اس کی نشوونما نیکی صدقہ و خیرات اور دینی باتوں سے گہری دلچسپی پر ہوئی تھی اس لیے لوگوں نے اسے محبت کی نظر سے دیکھا اسے بڑا عالم اور اللہ کا ولی سمجھ کر اس کی پیروی کی پھر اس شخص نے ملک شام کا سفر کیا اس نے دیکھا وہاں بتوں کی پوجا ہو رہی تھی اس نے سمجھا یہ طریقہ بھی اچھا ہے اور برحق ہے کیونکہ ملک شام پیغمبروں کی سرزمین تھی آسمانی کتابیں وہاں نازل ہوئی تھی چنانچہ واپسی پر وہ وہاں سے اپنے ساتھ ہبل بت بھی لے آیا اور اسے خانہ کعبہ کے اندر نصب کر دیا اور اہل مکہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی دعوت دی اہل مکہ نے اس پر لبیک کہا اس کے بعد بہت جلد حجاز کے باشندے بھی شامل ہو گئے وہ بھی ان کے نقشِ قدم پر چل پڑے اس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا ہبل کے علاوہ عرب کے قدیم ترین بتوں میں سے ایک منات تھا یہ بحر احمر کے ساحل پر قدیب کے قریب مشلل میں نصب تھا اس کے بعد طائف میں لات نامی بت وجود میں آیا پھر وادی نخلہ میں عزیٰ کا بت نصب کیا گیا یہ تینوں عرب کے سب سے بڑے بت تھے اس کے بعد حجاز کے ہر خطے میں شرک کی کثرت اور بتوں کی بھرمار ہو گی کہا جاتا ہے کہ ایک جن عمرو بن لحی کے تابع تھا اس نے بتایا قوم نوح کے بت ود سواع یغوث یعوق نسر جدہ میں دفن ہیں اس اطلاع پر عمرو بن لحی جدہ گیا اور ان بتوں کو کھود نکالا پھر ان کو تحامہ لایا اور جب حج کا زمانہ آیا تو انہیں مختلف قبائل کے حوالے کیا یہ قبائل ان بتوں کو اپنے اپنے علاقوں میں لے گئے اس طرح ہر ہر قبیلے میں پھر ہر ہر گھر میں ایک ایک بت ہو گیا اسی پر بس نہیں کی گئی اس کے بعد مشرکین نے مسجد حرام کو بھی بتوں سے بھر دیا چنانچہ جب مکہ فتح ہوا تو بیت اللہ اور اس کے گرداگرد تین سو ساٹھ بت تھے جن کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے توڑا آپ ہر ایک بت کو چھڑی سے ٹھوکر مارتے تو وہ گر جاتا
پھر آپ نے حکم دیا ان تمام بتوں کو مسجد حرام سے باہر نکال دو چنانچہ ان سارے بتوں کو مسجد حرام سے باہر نکال کر جلا دیا غرض شرک اور بت پرستی اہل جاہلیت کے دین کا سب سے بڑا مظہر بن چکی تھی اور ان لوگوں کو یہ گمنڈ بھی تھا کہ وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہیں پھر اہل جاہلیت کے یہاں بت پرستی کے کچھ طریقے بھی رائج تھے جو زیادہ تر عمرو بن لحی کے گھڑے ہوئے تھے یہ جاہل لوگ سمجھتے تھے کہ عمر و بن لحی کے طریقے دین ابراہیمی میں تبدیلی نہیں بلکہ بدعت حسنہ ہیں ان میں بت پرستی کی کیا کیا رسمیں رائج تھیں اس کی کچھ تفصیل بھی جان لیجیے
1 اس دور کے جاہل مشرک بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے اور انہیں زور زور سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کیلئے پکارتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ اللہ سے سفارش کر کے ہماری مراد پوری کرا دیں گے
2 وہ بتوں کے سامنے عجز و نیاز سے پیش آتے تھے اور انہیں سجدہ کرتے تھے۔
3 بتوں کیلئے نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے اور قربانی کے ان جانوروں کو کبھی بتوں کے آستانوں پر لے جا کر ذبح کرتے اور کبھی کسی اور جگہ ذبح کر لیتے تھے مگر بتوں کے نام ذبح کرتے تھے ذبح کی ان دونوں صورتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر تین میں کیا ہے یعنی وہ جانور بھی حرام ہیں جو آستانوں پر ذبح کیے گئے ہوں دوسری جگہ سورۃ الانعام کی آیت نمبر 121 میں فرماتے ہیں یعنی اس جانور کا گوشت مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو یہ تھے ان کے عقائد اور اعمال عرب اپنے بتوں کے ساتھ یہ سب کچھ اس عقیدے سے کرتے تھے کہ یہ انہیں اللہ کے قریب کر دیں گے اور اللہ کے حضور ان کی سفارش کر دیں گے چنانچہ مشرکین جو کہتے تھے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ زمر کی آیت نمبر 3 میں اس طرح تذکرہ کیا ہے ترجمہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں اسی طرح قرآن کریم کی سورۃ یونس آیت نمبر 18 میں یہ الفاظ آئے ہیں ترجمہ یہ مشرکین اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نفع پہنچا سکیں اور نہ نقصان اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
اس کے علاوہ مشرکین کے اور عقائد اور اعمال بھی تھے جن کا ذکر کریں تو بات شاید بہت لمبی ہو جائے اس لیے بات کو تھوڑا مختصر کرتا ہوں کیونکہ میرا مقصد آج کے نام نہاد مسلمانوں کو شرک سے آگاہ کرنا ہے
یہاں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ صحیح بخاری کی وہ دو احادیث بیان کروں جس میں ود سواع یغوث یعوق اور نسر کا اور لات اور عزیٰ کا ذکر ہے تانکہ تھوڑی مزید وضاحت ہو جائے۔
پہلی حدیث:
حدثنا إبراهيم بن موسى، ‏‏‏‏‏‏اخبرنا هشام، ‏‏‏‏‏‏عن ابن جريج، ‏‏‏‏‏‏وقال عطاء:‏‏‏‏ عن ابن عباس رضي الله عنهما، ‏‏‏‏‏‏صارت الاوثان التي كانت في قوم نوح في العرب بعد اما ود كانت لكلب بدومة الجندل، ‏‏‏‏‏‏واما سواع كانت لهذيل، ‏‏‏‏‏‏واما يغوث فكانت لمراد، ‏‏‏‏‏‏ثم لبني غطيف بالجوف عند سبإ، ‏‏‏‏‏‏واما يعوق فكانت لهمدان، ‏‏‏‏‏‏واما نسر فكانت لحمير لآل ذي الكلاع، ‏‏‏‏‏‏اسماء رجال صالحين من قوم نوح، ‏‏‏‏‏‏فلما هلكوا اوحى الشيطان إلى قومهم ان انصبوا إلى مجالسهم التي كانوا يجلسون انصابا وسموها باسمائهم، ‏‏‏‏‏‏ففعلوا فلم تعبد حتى إذا هلك اولئك، ‏‏‏‏‏‏وتنسخ العلم عبدت".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے اور عطاء نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جو بت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے۔ ود دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا۔ سواع بنی ہذیل کا۔ یغوث بنی مراد کا اور مراد کی شاخ بنی غطیف کا جو وادی اجوف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے یعوق بنی ہمدان کا بت تھا۔ نسر حمیر کا بت تھا جو ذوالکلاع کی آل میں سے تھے۔ یہ پانچوں نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی موت ہو گئی تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھے تھے ان کے بت قائم کر لیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے بت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی۔ (صحيح بخاري، كتاب التفسير، حدیث نمبر: 4920)
دوسری حدیث:
حدثنا مسلم بن إبراهيم، ‏‏‏‏‏‏حدثنا ابو الاشهب، ‏‏‏‏‏‏حدثنا ابو الجوزاء، ‏‏‏‏‏‏عن ابن عباس رضي الله عنهما، ‏‏‏‏‏‏في قوله:‏‏‏‏ اللات والعزى سورة النجم آية 19 كان اللات رجلا يلت سويق الحاج".
ہم سے مسلم بن ابراہیم فراہیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاشھب جعفر بن حیان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالجوزاء نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لات اور عزیٰ کے حال میں کہا کہ لات ایک شخص کو کہتے تھے وہ حاجیوں کے لیے ستو گھولتا تھا۔ ( صحيح بخاري، كتاب التفسير، حدیث نمبر: 4859)
دیکھا آپ نے کس طرح اللہ کے بندوں کے نام کے بت بنائے گئے پھر انہیں مصائب و مشکلات میں پکارا گیا اور ان کے نام کی نذر ونیاز دی گئی اور انہیں اپنا سفارشی سمجھا گیا۔ بت تو صرف پتھر کی ایک ظاہری شکل و صورت تھی مشرکین یہ نہیں کہتے تھے کہ فلاں بت یا پتھر میری مدد کر بلکہ وہ بت جن لوگوں کی طرف منسوب کیے گئے تھے وہ انہیں ہی پکارتے تھے
اس لیے اللہ تعالٰی نے فرمایا:
اِنَّ الَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمۡثَالُـكُمۡ‌ فَادۡعُوۡهُمۡ فَلۡيَسۡتَجِيۡبُوۡا لَـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ
ترجمہ:
(مشرکو) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم ان کو پکارو اگر سچے ہو تو چاہیئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں
(سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 194)
ایک اور جگہ فرمایا
اَفَحَسِبَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنۡ يَّتَّخِذُوۡا عِبَادِىۡ مِنۡ دُوۡنِىۡۤ اَوۡلِيَآءَ‌ ؕ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا جَهَـنَّمَ لِلۡكٰفِرِيۡنَ نُزُلًا‏
کیا کافر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا (اپنا) کارساز بنائیں گے (تو میں خفا نہیں ہوں گا) ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے جہنم کی (مہمانی) تیار کر رکھی ہے
(سورۃ 18 الکہف آیت نمبر 102)
ایک اور جگہ فرمایا
قُلِ ادۡعُوا الَّذِيۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ فَلَا يَمۡلِكُوۡنَ كَشۡفَ الضُّرِّ عَنۡكُمۡ وَلَا تَحۡوِيۡلًا اُولٰۤئِكَ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ يَبۡتَغُوۡنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الۡوَسِيۡلَةَ اَيُّهُمۡ اَقۡرَبُ وَيَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَهٗ وَيَخَافُوۡنَ عَذَابَهٗؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحۡذُوۡرًا
ترجمہ:
کہو کہ (مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے یہ لوگ جن کو (اللہ کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (اللہ کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے
( سورۃ نمبر 17 الإسراء آیت نمبر 57٬56)
مندرجہ بالا آیات میں مشرکوں کو متنبہ کیا گیا ہے اور ذیل کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کا وہ منظر کھینچا ہے جب مشرک اور شریک آمنے سامنے ہوں گے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے
ترجمہ:
اور وه دن بھی قابل ذکر ہے جس روز ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھہرو، پھر ہم ان کے آپس میں پھوٹ ڈال دیں گے اور ان کے وه شرکا کہیں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے,سو ہمارے تمہارے درمیان اللہ کافی ہے گواه کے طور پر، کہ ہم کو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی اس مقام پر ہر شخص اپنے اگلے کیے ہوئے کاموں کی جانچ کرلے گا اور یہ لوگ اللہ کی طرف جو ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور جو کچھ جھوٹ باندھا کرتے تھے سب ان سے جاتا رہے گا
( سورة يونس آیت نمبر: 30-28)
ترجمہ:
اور جس دن اللہ تعالیٰ انہیں اور سوائے اللہ کے جنہیں یہ پوجتے رہے، انہیں جمع کر کے پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراه کیا تھا یا یہ خود ہی گمراہ ہوگئے تھے؟ وه جواب دیں گے کہ تو پاک ہے خود ہمیں ہی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا اوروں کو اپنا کارساز بناتے بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو آسودگیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ وه نصیحت بھلا بیٹھے،اور یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے تو (مشرکو) انہوں نے تو تمہیں تمہاری تمام باتوں میں جھٹلایا، اب نہ تو تم میں عذابوں کے پھیرنے کی طاقت ہے، نہ مدد کرنے کی، تم میں سے جس جس نےظلم(شرک) کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے
( سورة الفرقان آیت نمبر: 19-17)
اب بھی اگر کوئی شخص کہے کہ بتوں کو پکارنے والا تو مشرک ہو سکتا ہے لیکن اولیاء اللہ کو پکارنے والا مشرک نہیں ہو سکتا تو صریح غلطی پر ہے کیونکہ وہ بت بھی اللہ کے بندوں کے ہی بنائے گئے تھے جنہیں مشرکین پکارتے تھے اور ان میں اکثر بت تو اولیاء اللہ کے نام کے ہی بنائے گئے تھے،
قرآن کے مطابق اگر مشرکوں نے نیک لوگوں کی عبادت کی ہو گی تو نیک لوگ قیامت کے دن اپنے پوجنے والوں کے خلاف ہو جائیں گے پھر مشرکوں کو تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا جبکہ نیک لوگوں کو بچا لیا جائے گا اور اگر مشرکوں نے اپنے جیسے مشرکوں یا کافروں کی عبادت کی ہو گی تو مشرکوں اور شریکوں دونوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
آخری بات کہہ کر بات کو ختم کرتا ہوں
اے میرے مسلمان بھائیو! شیطان مردود کے نقشِ قدم پر نہ چلو حق کو پہچانو اور اسے قبول کرو آج وقت ہے ورنہ کل ہمیشہ کیلئے شیطان مردود کے ساتھ تم بھی جہنم میں جلتے رہو گے تمہارا صرف یہ کہہ دینا کہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں کافی نہیں بلکہ تمہیں عبادت کی تمام قسموں کو بھی اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کرنا ہو گا حدیث میں ہے کہ دعا عبادت ہے تو تمہیں غائبانہ حاجات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارنا ہے،اسی طرح نذر ونیاز، قربانی، رکوع سجود،توکل،غائبانہ ڈر بھی عبادت کی قسمیں ہیں انہیں بھی اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کرنا ہوگا۔ نذر ونیاز اور قربانی کے حوالے سے لوگوں کے ذہن میں ایک بات یہ بھی آتی ہے کہ ہم جب کسی جانور کو کسی مزار پر لے جاتے ہیں تو اس کے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ مزار یا قبر پر وہی جانور کو لے کر جاتا ہے جس نے نذر مانی ہو جبکہ اسلام میں اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے نذر ماننا حرام ہے دوسری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر لعنت کی ہے جو اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے جانور ذبح کرے (صحیح مسلم)۔ تیسری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام میں عقر نہیں ہے یعنی قبروں پر لے جا کر جانوروں کو ذبح کرنا اسلام میں نہیں ہے چوتھی اور آخری بات چاہئے کوئی جانور مزار پر لے جا کر ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لے لیکن اس کا مزار پر لے جا کر ذبح کرنا اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا ہے تانکہ صاحب قبر اس سے خوش ہو اور اس کی مراد پوری کر دے یا کرا دے یہ شرکیہ فعل ہے اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو شرک سے بچائے آمین یارب العالمین۔
#از اویس تبسم

حلالہ اور حلال نکاح میں فرق حلال نکاح نیز طلاق کیسے دی جائے

طلاق کیسے دی جائے
(از اویس تبسم)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي* وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي* وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي * يَفْقَهُوا قَوْلِي
جب میاں بیوی میں ایسی نااتفاقی پیدا ہو جائے جس سے خاندان کی تباہی اور زندگی کے امن و سکون کی بربادی کا خطرہ لاحق ہو اور زوجین کے درمیان حدود اللہ کا قیام ناممکن ہو جائے تو شوہر کو اختیار ہے کہ بیوی کو اس طہر کی حالت میں ایک طلاق دے جس میں اس نے بیوی سے مقاربت نہ کی ہو۔یہ ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اور عدت کے اندر شوہر کو رجعت کا حق حاصل ہوگا یعنی اس مدت میں بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے۔یہ تین ماہ کی مدت ہے جس میں زوجین کو سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کا موقع ملے گا۔
فرمان باری تعالیٰ ہے
وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْۗءٍ
اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو وہ تین مرتبہ حیض آنے تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں (سورۃ البقرہ 228)
ایک اور جگہ فرمایا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحْصُواالْعِدَّةَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ
اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو ، اور عدت کو اچھی طرح شمار کرو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے، ان عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں الا یہ کہ وہ کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کریں٬ (سورۃ الطلاق 1)
(عدت کے دوران شوہر کے ذمے واجب ہے کہ جس بیوی کو طلاق دی ہے اس کو اپنے گھر میں رہائش فراہم کرے، اور عورت کے ذمے بھی یہ واجب ہے کہ وہ شوہر ہی کے گھر میں عدت گزارے، اور کہیں نہ جائے، البتہ اللہ تعالیٰ نے وہ صورت اس سے مستثنی فرمادی ہے جب عورت کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرے)
ایام عدت میں عورت مرد کے گھر میں ہی رہے گی اور کوئی بھی دوسرا مرد اس کو نکاح کا پیغام نہیں بھیج سکتا اس کے بعد اگر مرد اس عدت میں رجوع نہیں کرتا اور دوسری طلاق بھی دے دیتا ہے تو عورت کو اس کا گھر چھوڑنا ہو گا اب وہ اپنے والدین کے گھر میں رہے گی اب عورت آزاد ہو گی کوئی بھی اس کو نکاح کا پیغام بھیج سکتا ہے چاہے تو سابقہ شوہر بھی اب عورت کی اور اس کے گھر والوں کی مرضی ہے جہاں چاہیں اس کا نکاح کر دیں اگر سابقہ شوہر اور مطلقہ عورت جائز طور پر پھر نکاح کیلئے راضی ہو جاتے ہیں تو یہ نکاح کے زیادہ حقدار ہیں
فرمان باری تعالیٰ ہے
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْهَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دے دی ہو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو ( اے میکے والو) انہیں اس بات سے منع نہ کرو کہ وہ اپنے ( پہلے) شوہروں سے ( دوبارہ) نکاح کریں، بشرطیکہ وہ بھلائی کے ساتھ ایک دوسرے سے راضی ہوگئے ہوں۔ ان باتوں کی نصیحت تم میں سے ان لوگوں کو کی جارہی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں۔ یہی تمہارے لیے زیادہ ستھرا اور پاکیزہ طریقہ ہے، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرہ 232)
اگر سابقہ شوہر مطلقہ عورت سے نکاح نہیں کرتا اور تیسری طلاق بھی دے دیتا ہے تو اب وہ اس سے نکاح نہیں کر سکتا الا یہ کہ مطلقہ عورت کسی دوسرے مرد کے نکاح میں چلی جائے اور زندگی کے کسی موڑ پر وہ بھی اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دی یا فوت ہو جائے تو عورت عدت گزارنے کے بعد سابقہ شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔
آخر کلام رب العالمین کے فرامین کو توجہ سے سنیں اور ان پر عمل کریں اور اس کی نافرمانیوں سے بچیں
1)اگر طلاق دینا ضروری ہی ہے تو ایک وقت میں صرف ایک طلاق دیں
2) ایک مجلس میں تین طلاقیں دے کر رب کی نافرمانی نہ کریں
3)حلالہ جیسی لعنت سے بچیں
فرمان باری تعالیٰ ہے
اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا سخت حساب لیا، اور انہیں سزا دی، ایسی بری سزا جو انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔
چنانچہ انہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھا، اور ان کے اعمال کا آخری انجام نقصان ہی نقصان ہوا۔
(اور آخرت میں) ہم نے ان کے لیے ایک سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ لہذا اے عقل والو جو ایمان لے آئے ہو، اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ نے تمہارے پاس ایک سراپا نصیحت بھیجی دی ہے۔(سورۃ الطلاق 8-10)

سامان معیشت


اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے زمین اپنے بندوں کے رہنے سہنے کے لئے بنائی۔ اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے تانکہ ہلے جلے نہ، اور اس میں چشمے جاری کر دیئے، اس میں منزلیں اور گھر بنانے کی طاقت انسان کو عطا فرمائی اور بہت سی نفع کی چیزیں اس میں پیدا کی۔
ابر سے پانی برسا کر ان کے لیے کھیت اور باغات پیدا کئے۔ تلاش معاش کے وسائل مہیا فرمائے۔ تجارت اور کمائی کے طریقے سکھا دیئے۔ باوجود اس کے اکثر لوگ پوری شکر گزاری نہیں کرتے۔
ایک آیت میں فرمان ہے
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ(14-إبراهيم:34)
یعنی ” اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے بیٹھو تو یہ بھی تمہارے بس کی بات نہیں لیکن انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے۔