سب کے سب ایک دن میدان حشر میں


اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر فرما رہا ہے اور جب تعجب خیز بڑے بڑے کام اس دن ہوں گے، ان کا ذکر کر رہا ہے کہ
«يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا» (52-الطور: 9، 10)
آسمان پھٹ جائے گا «وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ» (27-النمل: 88)
پہاڑ اڑ جائیں گے گو تمہیں جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس دن تو بادلوں کی طرح تیزی سے چل رہے ہوں گے۔
«وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ» (101-القارعة: 5)
آخر روئی کے گالوں کی طرح ہو جائیں گے،
«وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرَىٰ فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا» (20-طٰہ: 105-107)
زمین صاف چٹیل میدان ہو جائے گی جس میں کوئی اونچ نیچ تک باقی نہ رہے گی، نہ اس میں کوئی مکان ہو گا نہ چھپر۔ ساری مخلوق بغیر کسی آڑ کے اللہ کے بالکل سامنے ہو گی۔ کوئی بھی مالک سے کسی جگہ چھپ نہ سکے گا، کوئی جائے پناہ یا سر چھپانے کی جگہ نہ ہو گی۔ کوئی درخت، پتھر، گھاس پھوس دکھائی نہ دے گا۔
«قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَىٰ مِيقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ» (56-الواقعة: 50، 49) تمام اول و آخر کے لوگ جمع ہوں گے، کوئی چھوٹا بڑا غیر حاضر نہ ہو گا۔ تمام اگلے پچھلے اس مقرر دن جمع کئے جائیں گے،
«ذَٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ» (11-ھود: 103)
اس دن سب لوگ حاضر شدہ ہوں گے اور سب موجود ہوں گے۔
«يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَقَالَ صَوَابًا» (78-النبإ: 38)
تمام لوگ اللہ کے سامنے صف بستہ پیش ہوں گے، روح اور فرشتے صفیں باندھے ہوئے کھڑے ہوں گے، کسی کو بات کرنے کی بھی تاب نہ ہو گی بجز ان کے جنہیں اللہ رحمان اجازت دے اور وہ بات بھی معقول کہیں۔ پس یا تو سب کی ایک ہی صف ہو گی یا کئی صفوں میں ہوں گے۔ جیسے ارشاد قرآن ہے «وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا» (89-الفجر: 22) تیرا رب آئے گا اور فرشتے صف بہ صف۔ وہاں منکرین قیامت کو سب کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ ہو گی کہ دیکھو جس طرح ہم نے تمہیں اول بار پیدا کیا تھا، اسی طرح دوسری بار پیدا کر کے اپنے سامنے کھڑا کر لیا، اس سے پہلے تو تم اس کے قائل نہ تھے۔
نامہ اعمال سامنے کر دیئے جائیں گے جس میں ہر چھوٹا بڑا، کھلا چھپا عمل لکھا ہوا ہو گا۔ اپنی بد اعمالیوں کو دیکھ دیکھ کر گناہ گار خوف و حیرت زدہ ہو جائیں گے اور افسوس و رنج سے کہیں گے کہ ہائے ہم نے اپنی عمر کیسی غفلت میں بسر کی، افسوس بد کرداریوں میں لگے رہے اور دیکھو تو اس کتاب نے ایک معاملہ بھی ایسا نہیں چھوڑا جسے لکھا نہ ہو، چھوٹے بڑے تمام گناہ اس میں لکھے ہوئے ہیں۔
جو خیر و شر، بھلائی برائی جس کسی نے کی ہو گی، اسے موجود پائے گا جیسے آیت «يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا» (3- آل عمران: 30)
اور آیت «يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ» (75- القيامة: 13)
اور آیت «يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاىِٕرُ» (86- الطارق: 9) الخ میں ہے،
تمام چھپی ہوئی باتیں ظاہر ہو جائیں گی۔