امام کے پیچھےسورۃ فاتحہ


حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ ، أَنَّ أَبَا السَّائِبِ ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ "، فَقُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَإِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ، فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ: " يَا فَارِسِيُّ، اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص و ناتمام ہے“، ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا پھر بھی سورۃ فاتحہ پڑھوں) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔
سنن ابن ماجه،كتاب إقامة الصلاة والسنة،حدیث نمبر: 838 (صحیح)
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۱ (۳۹۵)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۳۵ (۸۲۱)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة (۲۹۵۳)، سنن النسائی/الافتتاح ۲۳ (۹۱۰)، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۳۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۹ (۳۹)، مسند احمد (۲/۲۴۱، ۲۵۰، ۲۸۵، ۲۹۰، ۴۵۷، ۴۷۸، ۴۸۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی بہرحال ہر شخص کو ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا چاہئے، امام ہو یا مقتدی، سری نماز ہو یا جہری، اہل حدیث کا یہی مذہب ہے، اور دلائل کی روشنی میں یہی قوی ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں «القراءۃ خلف الإمام» نامی ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے، اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے، ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مقتدی کسی نماز میں قراءت نہ کرے نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں اور دلیل ان کی یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا» ” جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو “ (سورة الأعراف: 204)، اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے سورۃ فاتحہ کا نہ پڑھنا ثابت نہیں ہوتا، اس لئے کہ مقتدی کو آہستہ سے سورۃ فاتحہ پڑھنا چاہئے جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اپنے دل میں پڑھ لے، اور یہ مثل خاموش رہنے کے ہے، خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آواز بلند نہ کرو، تاکہ امام کی قراءت میں حرج واقع نہ ہو، اور دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جب تم امام کے پیچھے ہو تو سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھو کیونکہ جو آدمی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، ” تنویر العینین “ میں ہے کہ جو بھی صورت ہو اور جس طرح بھی ہو بہر حال سورۃ فاتحہ کا پڑھ لینا ہی بہتر ہے، اور یہی مقتدی کے لئے مناسب ہے، اور بیہقی نے یزید بن شریک سے روایت کی کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے قراءت خلف الامام کے بارے پوچھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ” سورۃ فاتحہ پڑھا کرو “، یزید نے کہا: اگرچہ جہری نماز میں ہو؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ” اگرچہ جہری نماز میں ہو “، احناف کی دوسری دلیل یہ حدیث ہے جس میں آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: «مالی انازع القرآن» ، اور اس کا جواب یہ ہے کہ منازعت (چھینا جھپٹی) اسی وقت ہو گی جب مقتدی بآواز بلند قراءت کرے، اور آہستہ سے صرف سورۃ فاتحہ پڑھ لینے میں کسی منازعت کا اندیشہ نہیں، اور اسی حدیث میں یہ وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” سورۃ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو “، اور ممکن ہے کہ مقتدی امام کے سکتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھے، پس آیت اور حدیث دونوں کی تعمیل ہو گئی، اور کئی ایک حنفی علماء نے اس کو اعدل الاقوال کہا ہے، صحیح اور مختار مذہب یہ ہے کہ مقتدی ہر نماز میں جہری ہو یا سری سورۃ فاتحہ ضرور پڑھے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، خلاصہ کلام یہ کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے، خواہ وہ فرض ہو یا نفل اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے، امام ہو یا مقتدی ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی کیونکہ «لا» نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع نماز ” مخصوص اقوال و افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے “، لہذا بعض یا کل کی نفی سے ذات کی نفی ہو جائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہو سکتی ہو تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب اور کمال ذات سے ابعد ہے اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہوگی جو ذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح